ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی
by انور دہلوی

ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی
دھیان میں وہ کمر نہیں آتی

مانگتا ہوں مگر نہیں آتی
یہ اجل وقت پر نہیں آتی

تیرے کشتوں کا روز حشر حساب
غیرت او فتنہ گر نہیں آتی

طبع اپنی بھی ایک آندھی ہے
خاک اڑانی مگر نہیں آتی

ابر کس کس طرح برستا ہے
شرم اے چشم تر نہیں آتی

تم تو یوں محو ظلم ہو کہ ہمیں
آہ کرنی مگر نہیں آتی

نذر کچھ کر کے دل کو لے کہ یہ جنس
مفت اے مفت بر نہیں آتی

مختصر حال درد دل یہ ہے
موت اے چارہ گر نہیں آتی

یا رب آباد کوئے یار رہے
کہ قیامت ادھر نہیں آتی

نیند کا کام گرچہ آنا ہے
میری آنکھوں میں پر نہیں آتی

بے طرح پڑتی ہے نظر ان کی
خیر دل کی نظر نہیں آتی

بے پری نے اڑا رکھا ہے مجھے
حسرت بال و پر نہیں آتی

سب کچھ آتا ہے تو نہیں آتا
گر وفا سیم بر نہیں آتی

اپنی اس آرزو کو کیا کوسوں
آب وہاں تیغ پر نہیں آتی

جان دینی تو ہم کو آتی ہے
دل کو تسکین اگر نہیں آتی

غیر کچھ مانگتا ہے دیکھیں تو
ہے تمہیں کس قدر نہیں آتی

دل کی اپنے جگر پہ لوں لیکن
ایک کی ایک پر نہیں آتی

دشمن اور اک نگہ میں لوٹ نہ جائے
چوٹ پوری مگر نہیں آتی

تیرا کوچہ ہے مصر نظارہ
کہ پلٹ کر نظر نہیں آتی

ان کا آنا تو ایک آنا ہے
موت بھی وقت پر نہیں آتی

انورؔ اس شب کی دیکھ لو تاخیر
صبح ہوتی نظر نہیں آتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse