ہے بد بلا کسی کو غم جاوداں نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے بد بلا کسی کو غم جاوداں نہ ہو
by مصطفٰی خان شیفتہ

ہے بد بلا کسی کو غم جاوداں نہ ہو
یا ہم نہ ہوں جہاں میں خدا یا جہاں نہ ہو

آئین اہل عشق کہاں اور ہم کہاں
اے آہ شعلہ بار نہ ہو خوں چکاں نہ ہو

فعل حکیم عین صلاح و صواب ہے
ساقی اگر شراب نہ دے سرگراں نہ ہو

تدبیر ترک دشمن جاں کی ہے رات دن
کس طرح پھر مجھے گلۂ دوستاں نہ ہو

کیا وہ متاع جس کی نہ ہو کوئی گھات میں
ڈرتا ہوں میں جو دزد پس کارواں نہ ہو

جب تک فروغ مے سے نہ ہو سینہ نورزار
ہرگز حریف مے کدہ اسرارداں نہ ہو

لازم ہے یار بھی تو ہو بیتاب ورنہ کیا
وہ عشق ہے کہ رنج یہاں ہو وہاں نہ ہو

ناحق وہ جی جلاتے ہیں سودائے عشق پر
جن کو یہ سوچ ہے کہ کچھ اس میں زیاں نہ ہو

ہم بوئے دوست تجھ کو سنگھائیں گے شیفتہؔ
محو شمیم طرۂ عنبر فشاں نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse