ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
by رشید لکھنوی

ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
بند آنکھیں ہیں کہ اے یار نظر میں تو ہے

دم بہ دم کہتے ہو کیوں فکر میں ناحق تو ہے
غم کو کیا کام مرا سر ہے مرا زانو ہے

اس لیے دل کے طلب کرنے پہ میں روتا ہوں
تر نہ ہو آپ کا دامن کہ یہ اک آنسو ہے

آج پھر کل کی طرح ہجر کی رات آتی ہے
دیکھیے کیا ہو وہی دل ہے وہی پہلو ہے

ایک مدت کا ہے قصہ کسی جانب دل تھا
یہ نہیں یاد یہ پہلو ہے کہ وہ پہلو ہے

یاد ایام گذشتہ میں نہ تڑپوں کیوں کر
کہ ابھی تک مرے بستر میں تمہاری لو ہے

مجھ کو مانع ہے ادب ذبح میں کیوں کر تڑپوں
او ستم گر مرے سینے پہ ترا زانو ہے

ہے عیاں دل کے دھڑکنے سے کسی کی الفت
آج کل آپ کے پہلو میں مرا پہلو ہے

ہو گیا ہے جو مرے دل کا ستانا منظور
آج کل آپ کی ہر بات میں اک پہلو ہے

ترک الفت تو کچھ آساں نہیں مشکل ہے رشیدؔ
روکو آہوں کو ذرا ان پہ اگر قابو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse