ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ  (1900) 
by حبیب موسوی

ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ
عارض ہے قمر خورشید جبیں شب زلف سحر ہے پرتو رخ

آنکھوں میں ہوا ہے گھر تیرا دل کہتا ہے رکھ ہر دم پردہ
ہو چشم تمنا کیوں کر وا عاشق کی نظر ہے پرتو رخ

جب مد نظر اغیار تھے واں تاریک تھا یاں آنکھوں میں جہاں
روشن ہے چراغ روح رواں کیا آج ادھر ہے پرتو رخ

کی فکر مگر باعث نہ کھلا اے لالہ رخ بے مہر و وفا
بتلا تو یہ دل کا درد ہے کیا گر داغ جگر ہے پرتو رخ

غش کوئی کسی کو ہے سکتا ہے نور خدا تیرا جلوہ
ہو دخل ترے گھر میں کس کا یاں حاجب در ہے پرتو رخ

اٹھ عاشق مضطر سجدے کر آئی ہے شب مقصد کی سحر
وہ دیکھتے ہیں غرفے سے ادھر اے خاک بسر ہے پرتو رخ

شہرہ ہے بہار عارض کا بلبل کی طرح عاشق ہیں فدا
ہے باغ جوانی روح افزا برگ گل تر ہے پرتو رخ

جس سے ہو آنسو خون جگر بن جائے عقیق و لعل و گہر
خورشید و قمر اور سیم و زر اے جان مگر ہے پرتو رخ

بیتاب حبیبؔ مضطر ہے حیران کبھی گہ ششدر ہے
پھرتا ہے گل خورشید صفت منہ اس کا جدھر ہے پرتو رخ

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse