ہیں یہ سارے جیتے جی کے واسطے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہیں یہ سارے جیتے جی کے واسطے
by رند لکھنوی

ہیں یہ سارے جیتے جی کے واسطے
کون مرتا ہے کسی کے واسطے

آدمی سہتا ہے کیا کیا ذلتیں
نفس مردود شقی کے واسطے

ہم بھی جائیں گے سلیماں تک کبھی
عرض کرنے اک پری کے واسطے

در بدر کوچوں میں ہم بھی پھر چکے
ایک حسن خانگی کے واسطے

کشت زار زعفراں سے کم نہیں
رنگ زرد اپنا ہنسی کے واسطے

کیوں دیے ہیں تو نے قسام ازل
رنج لاکھوں ایک جی کے واسطے

دو زکوٰۃ حسن کچھ درویش کو
ہیں بڑے رتبے سخی کے واسطے

اک سے اک ہیں ایک سے لے لاکھ تک
صف شکن مرد جری کے واسطے

غم نے اس درجہ کیا دل میں ہجوم
جا نہیں ہے خرمی کے واسطے

اور کیا ہو یار کی آنکھوں سے کام
خلق ہیں جادوگری کے واسطے

یاد رکھنا شرط اور مشروط ہے
آدمیت آدمی کے واسطے

رنج و اندوہ و ملال و درد و غم
صدمے ہیں یہ آدمی کے واسطے

سبزۂ مدفن اگا تھا کیوں فلک
آہوؤں کی کیا چری کے واسطے

لڑ گئے وہ اک ذرا سی بات میں
پہروں روٹھے اک گھڑی کے واسطے

جی نہ گھبرائے ترا بے مشغلے
عشق کر لے دل لگی کے واسطے

کیا مجھے پیدا کیا ہے اے خدا
ان بتوں کی بندگی کے واسطے

بے کسی میرے لیے پیدا ہوئی
میں بنا ہوں بے کسی کے واسطے

بولا مرغ نامہ بر کو کر کے ذبح
یہ سزا ہے ایلچی کے واسطے

دھگدگی میں جان اٹکی ہے مری
ہائے کس چمپا کلی کے واسطے

باریاب خلوت محبوب ہے
کیا شرف ہے آرسی کے واسطے

مرقد تیرہ میں کافی ہے مجھے
داغ سودا روشنی کے واسطے

کیجئے ہر دم عبث تن پروری
اے اجل کس زندگی کے واسطے

خامۂ قدرت نے کھینچیں وہ بھویں
راستی یہ ہے کجی کے واسطے

حشر کے دن رندؔ کو بخشائیو
یا علی روح نبی کے واسطے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse