ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں
Appearance
ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں
اللہ رے ظالم کی مظلوم نما آنکھیں
آفت میں پھنسائیں گی دیوانہ بنائیں گی
وہ غالیہ سا زلفیں وہ ہوش ربا آنکھیں
کیا جانیے کیا کرتا کیا دیکھتا کیا کہتا
زاہد کو بھی میری سی دیتا جو خدا آنکھیں
رحم ان کو نہ آیا تھا تو شرم ہی آ جاتی
بیداد کے شکوے پر جھکتیں تو ذرا آنکھیں
تم جان کو کھو بیٹھو یا آنکھوں کو رو بیٹھو
بیخودؔ نہ ملائیں گے وہ تم سے ذرا آنکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |