ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق
by امیر مینائی

ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق
نہ ادھر کے ہیں الٰہی نہ ادھر کے عاشق

ہے وہی آنکھ جو مشتاق ترے دید کی ہو
کان وہ ہیں جو رہیں تیری خبر کے عاشق

جتنے ناوک ہیں کماندار ترے ترکش میں
کچھ مرے دل کے ہیں کچھ میرے جگر کے عاشق

برہمن دیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق

آنکھ دکھلاؤ انہیں مرتے ہوں جو آنکھوں پر
ہم تو ہیں یار محبت کی نظر کے عاشق

چھپ رہے ہوں گے نظر سے کہیں عنقا کی طرح
توبہ کیجے کہیں مرتے ہیں کمر کے عاشق

بے جگر معرکۂ عشق میں کیا ٹھہریں گے
کھاتے ہیں خنجر معشوق کے چرکے عاشق

تجھ کو کعبہ ہو مبارک دل ویراں ہم کو
ہم ہیں زاہد اسی اجڑے ہوئے گھر کے عاشق

کیا ہوا لیتی ہیں پریاں جو بلائیں تیری
کہ پری زاد بھی ہوتے ہیں بشر کے عاشق

بے کسی درد و الم داغ تمنا حسرت
چھوڑے جاتے ہیں پس مرگ یہ ترکے عاشق

بے سبب سیر شب ماہ نہیں ہے یہ امیرؔ
ہو گئے تم بھی کسی رشک قمر کے عاشق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse