ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
by آرزو لکھنوی

ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
بے آس کو کب چین ملا ہے کسی گھر میں

چپ میں نے لگائی تو ہوا اس کا بھی چرچا
جو بھید نہ کھلتا ہو وہ کھل جاتا ہے ڈر میں

سورج کا گھمنڈ اور نہیں تارے کے برابر
ایسی ہی تو باتیں ہیں اس اندھیر نگر میں

وہ ٹل نہیں سکتی جو پہنچنے کی گھڑی ہے
چلتا رہے گلیوں میں کہ بیٹھا رہے گھر میں

ہوک اٹھی ادھر جی میں ادھر کوک اٹھی کوئل
پوچھے کوئی تو کون ادھر میں نہ ادھر میں

اے آرزوؔ آنکھوں ہی میں کٹ جاتے ہیں دن رات
کوئی بھی گھڑی چین کی ہے آٹھ پہر میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse