ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے
by ثاقب لکھنوی

ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے
کوئی تو ہو جو کبھی دل کے روبرو آئے

مرے لہو سے اگر ہو کے سرخ رو آئے
ملو تو برگ حنا میں وفا کی بو آئے

وہ آنسوؤں کی صفائی سے بد گماں ہیں عبث
دل و جگر میں رہا کیا ہے جو لہو آئے

شب وصال بھی تا صبح مطمئن نہ رہا
ابھی تھی رات کہ پیغام آرزو آئے

بیان برق تجلی چھڑا ہے اب سر طور
عجب نہیں مرے دل کی بھی گفتگو آئے

وصال و ہجر میں چھپتا ہے دل کا حال کہیں
بجھے تو پیاس سوا ہو جلے تو بو آئے

جو مے کے دینے میں پیر مغاں کو تھا انکار
دلوں کو توڑنے کیوں شیشہ و سبو آئے

عجب ہے اترے دم ذبح ان کی آنکھ میں خون
کٹیں کہاں کی رگیں اور کہاں لہو آئے

کیا سوال تو اس در سے یہ صدا آئی
اسے جواب ہے جو لے کے آرزو آئے

جہان میں ہیں سبکبار کب شگفتہ مزاج
چمن کے پھول لئے بار رنگ و بو آئے

مری زبان کو کانٹا سمجھتا ہے صیاد
نکال لے کہ نہ یہ ہو نہ گفتگو آئے

جھٹک رہی ہے مرا خون اپنے دامن سے
تمہاری تیغ ہے پھر کیا وفا کی بو آئے

مدد دے اتنی تڑپنے میں انقلاب جہاں
جو میرے دل میں نہاں ہے وہ روبرو آئے

بڑھا بڑھا کے مرا دل لگائیے تلوار
جگہ جفا کی سوا ہو اگر نمو آئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse