ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
Appearance
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
تڑپ کے روح یہ کہتی ہے ہجر جاناں میں
کہ تیرے ساتھ دل بے قرار ہم بھی ہیں
رہے دماغ اگر آسماں پہ دور نہیں
کہ تیرے کوچہ میں مست غبار ہم بھی ہیں
کہو کہ نخل چمن ہم سے سرکشی نہ کریں
انہیں کی طرح سے باغ و بہار ہم بھی ہیں
ہمارے آگے ذرا ہو سمجھ کے زمزمہ سنج
کہ ایک نغمہ سرا اے ہزار ہم بھی ہیں
کہاں تک آئنے میں دیکھ بھال ادھر دیکھو
کہ اک نگاہ کے امیدوار ہم بھی ہیں
شراب منہ سے لگاتے نہیں ہیں اے زاہد
فراق یار میں پرہیزگار ہم بھی ہیں
ہمارا نام بھی لکھ لو جو ہے قلم جاری
قدیم آپ کے خدمت گزار ہم بھی ہیں
ہما ہیں گرد مری ہڈیوں کے آٹھ پہر
سگ آ کے کہتے ہیں امیدوار ہم بھی ہیں
جو لڑکھڑا کے گرے تو قدم پہ ساقی کے
امیرؔ مست نہیں ہوشیار ہم بھی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |