ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت
by قائم چاندپوری

ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت
تم سلامت رہو بندے کے خریدار بہت

ہم دگر جب خفگی آئی تو جھگڑا کیا ہے
تم کو خواہندہ بہت ہم کو طرح دار بہت

آج کے رونے میں جی ڈوب چلا تھا لیکن
نالۂ دل نے رکھا مجھ کو خبردار بہت

شیخ مجھ کو نہ ڈرا گور کے اندھیارے سے
ہجر کی کاٹی ہیں میں نے تو شب تار بہت

دیکھیے اب کی تب عشق سے کیوں کر بیتے
غالب آیا ہے طبیعت پہ یہ آزار بہت

سچ کہو قتل پہ کس کے یہ کمر باندھی ہے
ان دنوں ہاتھ میں تم رکھتے ہو تلوار بہت

قائمؔ آتا ہے مجھے رحم جوانی پہ تری
مر چکے ہیں اسی آزار کے بیمار بہت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse