ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
by احمد حسین مائل

ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
دیتے ہیں دل اک آفت جاں کو تھامے ہوئے ہاتھوں سے جگر ہم

غیر کو گر وہ پیار کریں گے اپنے لہو میں ہوں گے تر ہم
ڈال ہی دیں گے ان کے قدم پر کاٹ کر اپنے ہاتھ سے سر ہم

صلح ہوئی تو نالے کھینچے یوں کرتے ہیں سب کو خبر ہم
پیٹتے ہیں سینے کا ڈھنڈھورا دیتے ہیں دل بار دگر ہم

اور ملیں گے چھوڑ نہ دیں گے سن کے صدائے مرغ سحر ہم
حلقہ دونوں ہاتھ کا اپنے ڈال رکھیں گے گرد کمر ہم

دل کے اندر طور کے اوپر چشم صنم میں عین حرم میں
تیری ہی صورت تیری ہی مورت پوجنے جائیں تجھ کو کدھر ہم

راز چھپتے تو آغاز اچھا بھید کھلے تو انجام اچھا
مثل سکندر بھیس بدل کر جاتے ہیں بن کر نامہ بر ہم

اندازہ گو کر ہی چکے ہیں آ جاتی ہے مٹھی میں یہ
آج مگر بے پردہ کریں گے دیکھیں گے پتلی سی کمر ہم

لاتے ہی کچھ رنگ جوانی آنکھ سے یوں کیں آنکھ نے باتیں
آؤ دکھائیں سب کو گھاتیں شعبدہ گر تم جادوگر ہم

کہتی ہیں زلفیں مشکیں کس لیں کوئی جو ڈالے ہاتھ کمر میں
پھیل کے سوؤ ڈر کیا تم کو گشت کریں گے گرد کمر ہم

لطف بڑا ہو اور مزا ہو اس کے عوض گر آپ کو پائیں
بیٹھ کے اپنے گھر کے اندر ڈھونڈھ رہے ہیں یار کا گھر ہم

تم کو نزاکت اور خدا دے ہم کو لذت اور خدا دے
پائنچے تم چٹکی سے اٹھا لو تھامے ہوئے چلتے ہیں کمر ہم

اٹھتا جوبن جھکتی گردن دبتی باتیں رکتی گھاتیں
ہائے نہ کیوں سو جاں سے فدا ہوں ان چاروں پر اٹھ پھر ہم

سایہ بن کر ساتھ چلیں گے ساتھ پھریں گے ساتھ رہیں گے
اپنے گھر میں غیر کے دل میں جاؤ جدھر تم آئیں ادھر ہم

جلد تم اٹھو دوڑ کے آؤ ہم کو تھامو ہم کو سنبھالو
گرتے ہیں مثل اشک زمیں پر اٹھتے ہیں شکل درد جگر ہم

سب سے چھڑا کر لائے اڑا کر کیا نہ رکھیں گے دل میں چھپا کر
رہنے بسنے چلنے پھرنے تم کو خدا کا دیں گے گھر ہم

منہ جو کھلے گا رنج بڑھے گا ہم سے نہ بولو ہم کو نہ چھیڑو
کاہیدہ تن آزردہ جان آشفتہ دل خستہ جگر ہم

یہ تو چھپر کھٹ چھوٹا سا ہے پہلو میں تم سوؤ گے کیوں کر
آؤ لٹا لیں سینے پر ہم تم کو سلا لیں چھاتی پر ہم

رنج گر آیا ہو تو بھلا دے پیار بڑھا دے ہم سے ملا دے
ان کی نگہ سے تو گر تو چکے ہیں جائیں نہ یا رب دل سے اتر ہم

دیکھ کے ان کا جوبن ابھرا میں نے کہا یہ مال ہے اچھا
بولے وہ کیا تم لوٹ ہی لو گے گود میں یوں آ جائیں اگر ہم

ٹھہری ہے باہم لطف کی بازی پہلے جو پائے جیت اسی کی
وصل کی شب ہے ڈھونڈ رہے ہیں دل وہ ہمارا ان کی کمر ہم

روز نئے دل لائیں کہاں سے ایسے تحفے پائیں کہاں سے
چاٹ پڑی ہے تم کو دلوں کی لوٹنے جائیں کس کا گھر ہم

غیر کے بر میں ان کو دیکھا خاک میں جائے ایسا نظارہ
ہاتھ میں کمبخت آ نہیں سکتا توڑتے ورنہ تار نظر ہم

نشو و نما پائی ہے دکن میں قدر ہماری کیوں کر ہوگی
گھر کی مرغی دال برابر کس کو دکھائیں اپنا ہنر ہم

کیوں نہ کرے دیوانہ کسی کو شرم کی عادت حسن کی شوخی
ہو گئے مائلؔ دیکھ کے مائل اٹھتا جوبن جھکتی نظر ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse