ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
by نظام رامپوری

ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
کیا بن آئے اس گھڑی جب وہ بگڑ کر بیٹھ جائے

تو وہ آفت ہے کوئی تجھ سے اٹھا سکتا ہے دل
دیکھ لے کوئی جو تجھ کو دل پکڑ کر بیٹھ جائے

وصل میں بھی اس سے کہہ سکتا نہیں کچھ خوف سے
دور کھچ کر پاس سے میرے نہ مڑ کر بیٹھ جائے

دوستو میری نہیں تقصیر دل دینے میں کچھ
دل وہ لے کر ہی اٹھے جب پاس اڑ کر بیٹھ جائے

اس خوشامد سے مرا کچھ مدعا ہی اور ہے
چاہتے ہو تم یہ میرے پاؤں پڑ کر بیٹھ جائے

اس کا بل کھا کر وہ اٹھنا پاس سے میرے غضب
اور اک آفت ہے جو وہ کھچ کر اکڑ کر بیٹھ جائے

مفت لے لیتے ہیں دل عاشق سے اپنے وہ نظامؔ
لاکھ پھر مانگے کوئی تھک کر جھگڑ کر بیٹھ جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse