ہو کچھ آسیب تو واں چاہئے گنڈا تعویذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو کچھ آسیب تو واں چاہئے گنڈا تعویذ
by نظیر اکبر آبادی

ہو کچھ آسیب تو واں چاہئے گنڈا تعویذ
اور جو ہو عشق کا سایہ تو کرے کیا تعویذ

دل کو جس وقت یہ جن آن کے لپٹا پھر تو
کیا کریں واں وہ جو لکھتے ہیں فلیتا تعویذ

ہم تو جب ہوش میں آویں جو کہیں سے پاویں
یار کے ہاتھ کا بازو کا گلے کا تعویذ

زور تعویذ کا چلتا تو عرب میں یارو
کیا کوئی ایک بھی مجنوں کو نہ دیتا تعویذ

کوہ کن کوہ کو کس واسطے کاٹا کرتا
دیتے غم خوار نہ کیا اس کے تئیں لا تعویذ

آخر اس کے بھی گیا دل کا دھڑکنا اس روز
قبر کا تیشے نے جب اس کے تراشا تعویذ

ہم کو بھی کتنے ہی لوگوں نے دیئے آہ نظیرؔ
پر کسی کا کوئی کچھ کام نہ آیا تعویذ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse