ہو کس طرح نہ ہم کو ہر دم ہوائے مطلب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو کس طرح نہ ہم کو ہر دم ہوائے مطلب
by نظیر اکبر آبادی

ہو کس طرح نہ ہم کو ہر دم ہوائے مطلب
دیکھا جو خوب ہم نے دنیا ہے جائے مطلب

جو گل بدن کہ آیا آغوش میں ہمارے
کچھ اور بو نہ نکلی اس میں سوائے مطلب

عشاق کی بھی الفت خالی نہیں غرض سے
مرتے ہیں یہ بھی اس پر جس سے برائے مطلب

کوئی کسی کے اوپر ہم نے فدا نہ دیکھا
منہ پر فدا ہیں لیکن دل میں فدائے مطلب

مطلب کے آشنا کو ہو کس سے آشنائی
کب آشنا کسی کا ہو آشنائے مطلب

گر بزم رقص دیکھی تو واں بھی گوش دل میں
کوئی صدا نہ آئی غیر از صدائے مطلب

زیر فلک تو ہم سے جاتی نہیں تمنا
ہاں پھر فلک پہ جاویں جب ہم سے جائے مطلب

وہ آبرو کہ جس پر کرتے ہیں جاں تصدق
اس کو بھی دے چکے ہیں اکثر برائے مطلب

جب حرف آبرو تک پہونچا نظیرؔ پھر تو
کیا کہئے ایسی جاگہ جزیہ کہ ہائے مطلب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse