ہو چکا جو کہ مقدر میں تھا درماں ہونا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو چکا جو کہ مقدر میں تھا درماں ہونا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

ہو چکا جو کہ مقدر میں تھا درماں ہونا
اب ترے ہاتھ ہے مشکل مری آساں ہونا

تھا جو مقسوم میں شرمندۂ احساں ہونا
غیر کے ہاتھ رہا دفن کا ساماں ہونا

حسن کا عشق کی وادی میں نمایاں ہونا
رمز تھا دن کو سر طور چراغاں ہونا

لذت درد جراحت تو مرے دل سے نہ پوچھ
پہلوئے زخم میں لازم تھا نمکداں ہونا

اک قیامت کا سماں تھا ترا اے صبح وطن
پردۂ شام غریباں کا نمایاں ہونا

خانہ بربادیاں ہر سمت سے گھیرے ہیں مجھے
در و دیوار پہ لکھا ہے بیاباں ہونا

امتحاں گاہ محبت میں نہ جانے کیا ہو
قہر کا سامنا ہے تیغ کا عریاں ہونا

آ رہی ہیں یہ امیدوں کی صدائیں پیہم
گو سفر سخت ہے لیکن نہ ہراساں ہونا

میری تربت بھی بنی ایسی زمیں پہ عالمؔ
جس کی تقدیر میں لکھا تھا بیاباں ہونا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse