ہوے خلق جب سے جہاں میں ہم ہوس نظارۂ یار ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوے خلق جب سے جہاں میں ہم ہوس نظارۂ یار ہے  (1900) 
by حبیب موسوی

ہوے خلق جب سے جہاں میں ہم ہوس نظارۂ یار ہے
ٹھہر اے اجل کہ وہ آئیں گے دم واپسیں کا قرار ہے

رہیں محو کیوں نہ ہر ایک دم کہ نظر میں جلوۂ یار ہے
دل منتظر ہے جو آئنہ تو خیال آئنہ دار ہے

یہ خطائے عشق کی دی سزا کہ مژہ سے مردم چشم نے
مرا دل دکھا کے یہ کہہ دیا اسے لو یہ قابل دار ہے

یہ خدا ہی جانے وہ کون تھا جو شہید ناز و ادا ہوا
کہ اڑی ہے خاک رہ صنم تو خزاں میں رنگ بہار ہے

ہوئیں ترک ساری محبتیں مرے سر پہ ڈھائی ہیں آفتیں
یہی دل کے لینے میں شرط تھی یہی مجھ سے قول و قرار ہے

یہ جنوں کی دیکھیے پختگی جو کبھی کسی نے نہ ہو سنی
مرے پیرہن کا جو تار ہے وہ ہر ایک ریشۂ خار ہے

کوئی دل کی نکلی نہ آرزو ہوا رنج و غم سے جگر لہو
پھرے خاک چھانتے کو بہ کو نہ تو صبر ہے نہ قرار ہے

پس مرگ بھی ہیں وہی ستم ہیں جفائیں روح پہ دم بدم
ادھر آتے آتے وہ پھر گئے جو سنا کہ میرا مزار ہے

مرے سینہ کو نہ ہدف کرو تپش جگر سے ڈرے رہو
پر مرغ تیر نہ جل اٹھیں کہ لہو برنگ شرار ہے

وہ خوشی دکھائی نہ چرخ نے کہ عوض میں جس کے نہ غم دئے
کبھی فرش گل ہے جو ایک شب تو مہینوں بستر خار ہے

جسے درد نالہ و آہ ہے جو شہید تیغ نگاہ ہے
شب ہجر اس کی گواہ ہے وہ حبیبؔ سینہ فگار ہے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse