ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
by اکبر الہ آبادی
295399ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہواکبر الہ آبادی

ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو

دل بھی حاضر سر تسلیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو کوئی قبلۂ حاجات تو ہو

دل تو بے چین ہے اظہار ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہار کرامات تو ہو

دل کشا بادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں
باطن افروز کوئی پیر خرابات تو ہو

گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن
کس سے کہیے کوئی مستفسر حالات تو ہو

داستان غم دل کون کہے کون سنے
بزم میں موقع اظہار خیالات تو ہو

وعدے بھی یاد دلاتے ہیں گلے بھی ہیں بہت
وہ دکھائی بھی تو دیں ان سے ملاقات تو ہو

کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا
مگر انسان میں کچھ فہم اشارات تو ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse