ہوگی وہ دل میں جو ٹھانی جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوگی وہ دل میں جو ٹھانی جائے گی
by ریاض خیرآبادی

ہوگی وہ دل میں جو ٹھانی جائے گی
کیا ہماری بات مانی جائے گی

ڈھل چکی ہے اب جوانی جائے گی
یہ شراب ارغوانی جائے گی

بعد توبہ آتش سیال خم
میرے گھر سے ہو کے پانی جائے گی

خضر یوں ہی گم رہیں گے عمر بھر
یوں ہی عمر جاودانی جائے گی

تیغ ہی کیا ہاتھ میں قاتل کے تھی
اے حنا تو بھی تو سانی جائے گی

آئے تارے ہجر کی شب کچھ نظر
اب بلائے آسمانی جائے گی

عرش پر ہے خوش جمالوں کا مزاج
کیوں کر ان کی لن ترانی جائے گی

خدمت میخانہ کر لے ورنہ شیخ
رائیگاں یہ زندگانی جائے گی

موت سے بد تر بڑھاپا آئے گا
جان سے اچھی جوانی جائے گی

شوخیاں کہتی ہیں کھل کھلیں گے وہ
اب حیا کی پاسبانی جائے گی

آگ بن کر جام میں آئے گی مے
زمزمی میں ہو کے پانی جائے گی

بوسۂ گیسو سے ہیں چیں بہ جبیں
رات بھر کیا سرگرانی جائے گی

بولے سن کر دل کے پامالی کا حال
کس گلی کی خاک چھانی جائے گی

جان سے بڑھ کر اسے رکھتے عزیز
کیا سمجھتے تھے جوانی جائے گی

ساتھ لائے ہیں قفس سے ناتواں
جاتے جاتے ناتوانی جائے گی

نالے کرنا سیکھ لے اے عندلیب
اب یہ طرز نغمہ خوانی جائے گی

شیخ نے مانگی ہے اپنی عمر کی
میکدے سے اب پرانی جائے گی

جا چکے ہیں آپ کل دشمن کے گھر
آج مرگ ناگہانی جائے گی

پینے آئیں تو فرشتہ خو ریاضؔ
حور کے دامن میں چھانی جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse