ہوٹل
میاں آزاد، خانہ برباد، یہاں بستر جمانے یا کسی مکان کا قبالہ لکھوانے تو آئے تھے نہیں۔ راہ راہ آئے دو تین دن رہے، چلے گئے۔ لکھنؤ کے اسٹیشن پر پہنچے تو وہ چہل پہل، وہ بھیڑ بھڑکا، وہ دھکم دھکا کہ شانہ سے شانہ چھلتا تھا۔ برہمن دیوتا ڈول لئے کھٹ کھٹاتے چلے جاتے ہیں۔ جل ٹھنڈے، کٹورا الگ کھنک رہا ہے۔ میاں بہشتا مشک یا مشکیزہ لیے ہوئے چہل قدمی کر رہے ہیں۔ ایک سمت ساقی، دوسرا خمیرہ بھر کر گڑگڑی لئے گڑگڑا رہا ہے۔ وہ مشک بو کہ دماغ طبلہ عطار ہو جائے۔ چبوترے کے سامنے کمہار برتن چن کر بیٹھا بیچ رہا ہے۔ مٹی کے کھلونوں پر وہ جوبن کہ باہر والے بصد شوق خرید لے جاتے ہیں۔ خریداروں پر خریدار ٹوٹے پڑتے ہیں۔ پیسا پھینکا اور حقہ لیا۔ ادھر میاں بہشتا نے تازہ کر دیا اور ساقی نے چلم تیار کی، دھواں دھار اڑانے لگے۔
کھٹک نے آواز لگائی۔ گلابی میوہ شہتوت، امرس ہے آم کے رسوں کا، قلمی آم کے رسوں کا۔ فقیر محمد خان کے باغ کا سفیدہ، بنارس کا لنگڑا، چار باغ کا بمبئی رنگترے، سنگ ترے، کوئے، انناس، نارنگیاں، شریفہ، امرود، سیب جو چاہے خرید لیجئے۔ ایک طرف حلوائی کی دکان، مٹھائی کے خوان، برفی کے تھال، ورق نقرہ لگے ہوئے پستے کی ہوائیاں۔ لوہے کے چراغ لٹکے ہوئے ہیں۔ دکان جھک جھک کر رہی ہے۔ اتنے میں آواز آئی، بسکٹ لے لوبسکٹ، کباب، کلچے۔ ادھر ادھر گھومے تو ٹوپی والا سامنے آن موجود ہوا۔ دوپلی ٹوپیاں، شربتی جامدانی، چکن، مری کے کام کی کڑھی، منڈیل گول ٹوپی، نئے نئے فیشن نرالی اور انوکھی وضع کی ٹوپیاں جھڑاجھڑ دکھا رہا ہے اور گاہک پر گاہک بہ بصد شوق دام چکا رہا ہے۔ دس پانچ ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔ دور دور تک مسافر بستر جمائے کوئی زین پوش، کوئی دری بچھائے، ریل کی راہ تک رہا ہے۔ کوئی گنوار اکڑوں بیٹھا اناپ شناپ بک رہا ہے۔ میاں آزاد اپنے دل میں سوچے کہ اللہ اللہ ریل کا اسٹیشن کیا ہے۔ خاصا میلہ ہے، کچھ ٹھکانا ہے۔ یہ بھیڑ، یہ دھوم، یہ رونق، بھئی واہ رے لکھنؤ، واللہ ایسا اسٹیشن بھی نہیں دیکھا۔ میاں آزاد ٹہلتے ہوئے اسٹیشن کے اندر گئے۔ ہوٹل دیکھا تو باچھیں کھل گئیں۔ اہوہوہو کیا صاف و شفاف ہے۔ ہر شے قرینے سے چنی ہوئی، در و دیوار سے صفائی برس رہی ہے۔ ہر سمت نور کا عالم ہے۔ اس سرے سے اس سرے تک میز اور اس کے ارد۔گرد کرسیاں۔ گلاس چنے ہوئے۔ لیمپ اور کنول ہر طرف روشن ہیں۔ میاں آزاد بھی کرسی پر جا کر ڈٹ گئے، کھانا لاؤ مگر شراب کا لگاؤ نہ ہو اور لحم خوک قریب نہ آنے پائے۔ایک چپراسی صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے چوبداروں کی سی پگڑی باندھے ہوئے سامنے آن کھڑا ہوا۔ حضور شراب تو نہ ہوگی مگر اور کیا آپ نے حکم دیا۔ میاں آزاد نے کہا لحم خوک (آہستہ سے) یعنی سور کا گوشت نہ ہو۔ (چپراسی) نا حضور کیا مجال۔ یہ کہہ کر چپراسی نہایت ہی قیمتی بیش بہا پلٹیوں میں طرح طرح کا انگریزی کھانا لایا۔ میاں آزاد نے چھری کانٹے سے خوب مزے سے چکھا اور سوڈا واٹر اور لیمونیڈ پیا اور باہر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میاں خوجی بستر جمائے ہوئے پراٹھے اور کباب کلچے چکھ رہے ہیں۔ آزاد واہ استاد تم تو خوب مزے سے کباب اڑا رہے ہو۔ خوجی پھر کوئی شراب اڑائے، کوئی کباب کھائے۔ آزاد ایں! شراب! لاحول و لاقوۃ۔ اے میاں شراب کس نے منہ سے لگائی، یہ کس کی شامت آئی۔ یہاں دخت رز سے واسطہ ہی نہیں رکھتے، بنت العنب کے عاشق دلدادہ کوئی اور ہی ہوں گے۔ کردم زشراب ناب توبہ۔ خوجی اور آگے تو کہے، کردم زشراب ناب توبہ۔ اور آگے، وز کردہ ناصواب توبہ۔ آزاد قسم قرآن کی کس مردک نے شراب کا ایک قطرہ بھی چھوا ہو۔ شراب پی ہو تو سور ہی کا گوشت کھایا ہو! خوجی (مسکرا کر) تسلیم ایک نہ شد دو شد۔ آپ نے سور کا گوشت بھلا کب چھوڑا ہوگا۔ واللہ مانتا ہوں۔ کہنے لگے شراب پی ہو تو سور کا گوشت کھایا ہو۔ معقول! یہ تو آپ تب کہیں جب اس کو حرام یا مکروہ بھی سمجھیں۔ آپ دونوں کو حلال اور ان کے استعمال کو مستحسن سمجھتے ہیں۔ یار آج تو تم نے غضب ہی کر دیا۔ آزاد ارے بھئی، آخر کیا کیا، کچھ کہوگے بھی یا ملاحی سنائے جاؤگے۔ سبحان اللہ، قسم لو جو ہم نے شراب کو ہاتھ بھی لگایا ہو یا سور کے گوشت کی صورت بھی دیکھی ہو۔ خوجی ہاں یہ آپ نے خوب کہی کہ سور کے گوشت کی صورت نہیں دیکھی ہوگی مگر یار مزہ تو خوب چکھا ہوگا اور شراب کو ہاتھ آپ کیوں لگاتے، گلے لگائی ہوگی، گلے! اور آپ کی قسم کا کس مردود کو اعتبار ہے۔ قسم کو تو آپ مانتے ہی نہیں۔ مجھے آج تک یہی نہیں معلوم ہوا کہ آپ کا دین ایمان کیا ہے۔ تمہارا تو بابا آدم ہی نرالا ہے۔ خیر جی اپنی اپنی سب بھگت لیں گے، ہم کواس بکھیڑے سے کیا واسطہ۔آزاد نہ ہاری مانتے ہو نہ جیتی۔خوجی مانیں کیا خاک۔ مانیں کیا، ہم نے اپنی آنکھوں دیکھا چھری کانٹا کھٹا کھٹ چل رہا ہے۔آزاد تو بھائی چھری کانٹے سے کوئی شراب پیتا ہے۔ خوجی ہم کیا جانیں، ہماری جانے جوتی کہ شراب کیوں کر پیتے ہیں۔ یہ کسی اپنے ایسے مے گسار بادہ خوار سے تحقیقات کیجئے۔ افسوس، واللہ بس تم گئے گزرے۔ ہائے ستم خیر مضی ما مضی۔ آزاد آپ ایک کام کیجئے ہوٹل میں جاکر۔ خوجی اے لاحول۔ اے لاحول۔ خدا ایسی جگہ کسی سچے اور پکے مسلمان کو نہ لے جائے۔ توبہ توبہ (اپنے کان پکڑ کر) خداوند بچائیو۔ گنہگار بندہ ہوں۔ ارے توبہ۔ ہوٹل میں اور ہم جائیں۔ لاحول و لاقوۃ، بس آپ کی کو مبارک رہے قبلہ، بندہ در گزرا۔ میاں آزاد ٹہلنے لگے اور خوجی نے کباب اور کلچوں پر خوب ہتھے لگائے۔ جب صفا چٹ کر چکے تو حلوائی کی دکان سے برفی لائے اور افیون کے نشے میں ٹونگارنے لگے تو اتنے میں ایک صاحب باریش دراز ایک مشت و پنجاہ انگشت نے میاں آزاد کو مخاطب کر کے کہا کہ کیوں حضرت آپ کا اسم مبارک۔ یہ بولے میاں آزاد۔ وہ مسکرائے اور کہا ہاں واللہ۔ آپ کے قد و قامت اور وضع قطع پر یہ نام موزوں ہے۔ آزادی اور آزادہ روی صورت سے برستی ہے۔ ملت کیا ہے؟ آزاد نے کہا، از مذہبم مپرس نہ مومن نہ کافرممن رسم ایں دیار ندانم مسافرمحضرت بندہ مسلمان ہے اور مسلم ایمان ہے۔ پابند شرع۔ آپ کا اسم شریف جناب مولوی صاحب۔مولوی صاحب اسم شریف تو چھپر پر رکھئے، اس وقت مجھے افسوس کرنے دیجئے۔ آزاد بسم اللہ آپ افسوس کر لیجئے بلکہ رو دیجئے مگر سنیے تو سہی۔ محرم الحرام کے دن قریب ہیں، خوب پیٹ بھر کر رو لیجئےگا۔ ایسی بے تابی کیا ہے۔ مولوی صاحب آپ مسلمان اور پابند شرع اپنے آپ کو بتاتے ہیں اور ہوٹل میں جاکر شراب خانہ استعمال میں لاتے ہیں۔ عیاذاً باللہ۔ مرد خدا، آخر انجام کی بھی فکر ہے یا سگ دنیاہی بنے رہوگے۔ آزاد قبلہ بس اب کیا کہوں بجز سکوت کے اور کوئی کلمہ زبان پر نہیں آنے پاتا۔ لاحول و لاقوۃ۔ مولوی صاحب بے ادبی معاف۔ لاحول تو آپ اپنے ہی اوپر پڑھتے ہیں۔ آپ سے حرکت شیطانی ہی ایسی ہوئی مگر بحمد اللہ کہ آپ کا نفس لوامہ آپ کو ملامت تو کرتا ہے۔ آزاد مولانا خدا کی قسم۔ میں نے ہوٹل میں صرف کھانا کھایا مگر وہ اغذیہ جو شرع کی رو سے حرام نہیں۔ پس نظر انصاف سے دیکھئے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ آخر روم میں بھی تو صغیر و کبیر اور بڑے بڑے علماء تحریر عیسائیوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ پھر یہاں ہندوستان کے مسلمان اس کو داخل گناہ کیوں سمجھنے لگے۔ میں نے کیا کفر کیا کہ مردود اور مطرود اور زندیق اور ملحد اور مرتد بنایا جاتا ہوں۔ مولوی صاحب مجھ سے سنئے میں عرض کروں نا، ہوٹل میں جانا اہل اسلام کے لئے مستحن نہیں۔ جو کھانا آپ نے ہوٹل میں چکھا ہے۔ اگر باہر منگوا کر اور فرش بچھوا کر چکھتے تو چنداں مضائقہ نہ تھا۔ گو یہ بھی معیوب تھا مگر اس درجہ نہیں، پھر آپ لاکھ قسمیں کھائیے۔ یقین کس ملعون کو آئے گا کہ آپ نے شراب نہیں پی یا سور کا گوشت نہیں کھایا۔ کاجل کی کوٹھی میں جو جائےگا، وہ منہ کالا کر کے آئےگا۔ کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ کالے ہی ہوتے ہیں۔ رومی لاکھ عیسائیوں کے ساتھ لقمے لگائیں اور بے تکلفی سے کھائیں، ہم کو تو ایسا نہ چاہئے۔ ہمارے رسوم کے خلاف ہے۔ آپ کو روم میں رہنا ہے یا ہندوستان میں۔ روم کی بات روم کے ساتھ ہے، ہندوستان اور ہندوستانیوں کے خیالات کا تذکرہ ہے یا روم اور رومیوں کی عادات کا۔ آخر باہر بھی تو کباب کلچے، شیرمال، پراٹھے، باقرخانی، روغنی روٹی، بسکٹ سب ہی کچھ بکتا ہے، پھر وہاں کھانے میں کون سی بہتری تھی۔ مفت میں اپنے آپ کو نکو بنانا اور ہنسوانا کون سی دانائی ہے۔ آزاد حضرت وہاں اول تو کھانا عمدہ اور لذیذ۔ دوسرے مقام صاف و شفاف۔ جس لطف سے ہم نے وہاں کھانا کھایا، وہ یہاں کجا، قلی کھڑا، صاف ستھرا پنکھا جھل رہا ہے۔ پلیٹیں صاف، میز شفاف، چار چار چپراسی خدمت کے لئے کھڑے ہیں۔ یہاں یہ باتیں کجا، لاحول و لاقوۃ۔
مولوی صاحب کھانا عمدہ تو آپ سمجھتے ہوں گے۔ باقی رہا پنکھا ایک پیسہ دے دیجئے، گھنٹہ بھر پنکھا جھلوا لیجئے اور صفائی کو مسافرت سے کیا کام۔ سوائے ازیں یہاں بھی کوئی غلیظ شئے نہیں ہے۔ یوں وحشت کی بات ہی کچھ اور ہے۔ خیر حضرت آپ جانیں آپ کا کام جانے، نصیحت گوش کن جاناں کہ از جاں دوست تر دارندجوانان سعادت مند پند پیر دانا رامانو یا نہ مانو، اس سے یہاں غرض نہیں۔ ماننا نہ آپ کے ہاتھ ہے، ہم نے کہہ دیا۔ میاں آزاد نے اپنے دل میں سوچا کہ آج سے ایسی حماقت نہ کریں گے کہ ڈنکے کی چوٹ پر ہوٹل میں جائیں اور مفت میں اپنے آپ کو ہنسوائیں۔ یوں تو ہمیں اختیار ہے کہ چاہے ہوٹل میں جائیں یا جو کھائیں مگر خاموشی کے ساتھ۔ یہ نہیں اسٹیشن بھر میں گھومتے پھریں کہ ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں۔ خوجی کیوں بھلا خیر۔ ایک ہمیں کو آپ الو بناتے تھے۔ اب تو ایک مولوی صاحب نے آپ کو قائل کر دیا۔ ہات تیرے کی اور ہوٹل میں کھاؤ۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |