ہولی (نظیر اکبر آبادی, VIII)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہولی
by نظیر اکبر آبادی

جدا نہ ہم سے ہو اے خوش جمال ہولی میں
کے یار پھرتے ہیں یاروں کہ تال ہولی میں
ہر ایک عیش سے ہے گا بحال ہولی میں
بہار اور کچھ اب کہ ہے سال ہولی میں
مزا ہے سیر ہے ہر سو کمال ہولی میں

سبھوں کہ عیش کو پھاگن کا یہ مہینہ ہے
سفید و زرد میں لیکن کمال کینا ہے
طلا کا زرد کنے سربسر خزینہ ہے
سفید پاس فقط سیم کا دفینہ ہے
ہر ایک دِل میں ہے رستم و زال ہولی میں

کہا سفید سے آخر کو زرد نے یہ پیام
کے اے سفید تو اب چھوڑ دے جہاں کا مقام
میں آیا اب تو مرا بند و بست ہوگا تمام
تو مجھ سے آن کہ مل چھوڑ اپنی ضد کا کلام
وگرنہ کھینچے گا تُو انفعال ہولی میں

ملے گا مجھ سے تُو میں تُجھ کو پھر بڑھاؤں گا
بنا کہ آپ سا پاس اپنے لے بٹھاؤں گا
کہا سفید نے میں مطلقاً نہ آؤں گا
تجھی کو بعد کئی دن کے میں بھگاؤں گا
تُو اپنا دیکھیو کیا ہوگا حال ہولی میں

یہ سن کے طیش میں آ زرد کا سپہ سالار
چڑھ آیہ فوج کو لے کر سفید پر یک بار
ادھر سفید بھی لڑنے کو ہو کہ آیا سوار
صف مقابلہ دونوں کی جب ہوئیں تیار
ہوا کرخت جواب و سوال ہولی میں

ملا ادھر سے سفید اور ادھر سے زرد بہار
گھٹائیں رنگ برنگ فوجوں کی جھکیں سرشار
پکھالیں مشکیں چھٹیں رنگ کی پڑی پوچھار
اور چار طرف سے پچکاریوں کی مارا مارا
اڑا زمیں سے زماں تک گلال ہولی میں

یہاں تو دونوں میں آپس میں ہو رہی یہ جنگ
ادھر سے آیا جُو اک شوخ با رخ گل رنگ
ہزاروں نازنیں معشوق اور اس کے سنگ
نشے میں مست کھلی زلف جوڑے رنگ برنگ
کہا کہ پُوچھو تو کیا ہے یہ حال ہولی میں

کہا کسی نے کے اے بادشاہ مہ رو یاں
سفید و زرد یہ آپس میں لڑ رہے ہیں یہاں
یہ سن کے آپ وہ دونوں کے آ گیا درمیاں
ادھر سے تھانبا اسے اُور ادھر اس کو کہ ہاں
تم اس قدر نہ کرو اختلال ہولی میں

کہا تمہاری خصومت کا ماجرا ہے کیا
کہا سفید نے ناحق یہ زرد ہے لڑتا
یہ سن کہ اس نے وہیں اپنا اک منگا جوڑا
پھر اپنے ہاتھ سے جوڑے کو چھڑکواں رنگوا
کہا کے دونوں رہو شامل حال ہولی میں

پھر اپنے تن میں جُو پہنا وہ خلعت رنگیں
سبھوں کو حکم کیا تم بھی پہنو اب یوں ہیں
ہزاروں لڑکوں نے پہنے وُہ جوڑنے پھر ووں ہیں
پکاری خلق کے انصاف چاہئے یوں ہیں
ہوا پھر اُور ہی حُسن و جمال ہولی میں

میاں میں کیا کہوں پھر اس مزے کی ٹھہری بہار
جدھر کو آنکھ اٹھا کر نظر کرو اک بار
ہزاروں باغ رواں ہیں کروڑوں ہیں گلزار
چمن چمن پڑے پھرتے ہیں سرو گُل رخسار
عجب بہار کہ ہیں نونہال ہولی میں

جو نہر حسن کی ہے موج مار چلتی ہے
علم لئے ہوئے آگے بہار چلتی ہے
اگاڑی مست صف گلعذار چلتی ہے
پچھاڑی عاشقوں کی سب قطار چلتی ہے
بھول کہ دِل میں خُوشی کا خیال ہولی میں

گلال عبیر سے کتنے بھرے ہیں چوپائے
تمام ہاتھوں میں گڑوے بھی رنگ کے لائے
کوئی کہے ہے کسی سے کے ہم بھی لو آئے
تُو اس سے کہتا وہ ہنس کر کے آ مرے جائے
ہنسی خُوشی کا ہے قال و مقال ہولی میں

اسی بہار سے گوکل پورے میں جا پوہنچے
اُور منڈی نائی کی اور سید خاں کی منڈی سے
سب عالم گنج میں شاہ گنج و تاج گنج پھرے
ہیں شہر میں نہیں اُور گرد شہر کے رہتے
ہوا ہجوم کا بحر کمال ہولی میں

سبھوں کو لے کہ کناری بزار میں آئے
پھر موتی کٹرے پلٹھی کہ لوگ سب دھائے
کے پیپل منڈی و پنی گلی کہ بھی آئے
جہاں تہاں سے یہ گھر گھر کہ لوگ سب دھائے
کے بے نواؤں کے دیکھیں جمال ہولی میں

ہوئی جُو سب میں شریف و رذیل میں ہولی
تُو پہلے رنگ کی پچکاریوں کی مار ہوئی
کسی کا بھر گیا جامہ کسی کی پگڑی بھری
کسی کہ منہ پہ لگائی گلال کی مٹھی
تُو رفتہ رفتہ ہوئی پھر یہ چال ہولی میں

گھٹائیں مشک و پکھالوں کی جھوم کر آئیں
سنہری بجلیاں پچکاریوں کی چمکائیں
صبا نے رنگ کی بوچھاریں آ کہ برسائیں
ہوا نے آن کہ سانون کی جھڑیاں بنوائیں
لگی برسنے کو مشک و پکھال ہولی میں

ادھر گلال کا بادل بھی چھا گیا گھنگھور
صدائے رعد ہوئی ہر کسی کا غل اور شور
یہ لڑکے نازنیں بولیں ہیں کوکلا جوں مور
تمام رنگ کی بوچھار سے ہیں شورابور
عجب ہے رنگ لگی برشگال ہولی میں

لگا کہ چوک سے اُور چار سو تلک دیکھا
کے جاگہ ایک بھی تل دھرنے کی نہیں ہے ذرا
تمام بھیڑ سے ہر طرف بند ہے رستا
تس اوپر رنگ کا بادل ہے اس قدر برسا
کے ہر گلی میں بہا ڈھولی کھال ہولی میں

نظیرؔ ہولی تُو ہے ہر نگر میں اچھی خوب
ولیک ختم ہوا آگرے پہ یہ اسلوب
کہاں ہیں ایسے صنم اُور کہاں ہیں یہ محبوب
جنہوں کہ دیکھے سے عاشق کا ہووے تازہ قلوب
تیری نرالی ہے یاں چال ڈھال ہولی میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse