ہولی (نظیر اکبر آبادی, VII)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہولی
by نظیر اکبر آبادی

ہوا جُو آ کہ نشاں آشکار ہولی کا
بجا رباب سے مِل کر ستار ہولی کا
سرود رقص ہوا بے شمار ہولی کا
ہنسی خُوشی میں بڑھا کاروبار ہولی کا
زباں پہ نام ہوا بار بار ہولی کا

خوشی کی دھوم سے ہر گھر میں رنگ بنوائے
گلال عبیر کہ بھر بھر کہ تھال رکھوائے
نشوں کہ جوش ہوئے راگ رنگ ٹھہرائے
جھمکتے روپ کہ بن بن کہ سوانگ دکھلائے
ہوا ہجوم عجب ہر کنار ہولی کا

گلی میں کوچے میں غل شور ہو رہے اکثر
چھڑکنے رنگ لگے یار ہر گھڑی بھر بھر
بدن میں بھیگے ہیں کپڑے گلال چہروں پر
مچی یہ دھوم تُو اپنے گھروں سے خوش ہو کر
تماشا دیکھنے نکلے نگار ہولی کا

بہار چھڑکواں کپڑوں کی جب نظر آئی
ہر عشق باز نے دِل کی مراد بھرپائی
نگہ لڑا کہ پکارا ہر ایک شیدائی
میاں یہ تم نے جُو پوشاک اپنی دکھلائی
خوش آیا اب ہمیں نقش و نگار ہولی کا

تمہارے دیکھ کہ منہ پر گلال کی لالی
ہمارے دِل کو ہوئی ہر طرح کی خوشحالی
نگہ نے دی مئے گُل رنگ کی بھری پیالی
جُو ہنس کہ دو ہمیں پیارے تم اس گھڑی گالی
تو ہم بھی جانیں کہ ایسا ہے پیار ہولی کا

جُو کی ہے تم نے یہ ہولی کی طرفہ تیاری
تُو ہنس کہ دیکھو ادھر کو بھی جان یک باری
تمہاری آن بہت ہم کو لگتی ہے پیاری
لگا دو ہاتھ سے اپنے جو ایک پچکاری
تو ہم بھی دیکھیں بدن پر سنگار ہولی کا

تمہارے ملنے کا رکھ کر ہم اپنے دِل میں دھیان
کھڑے ہیں آس لگا کر کے دیکھ لیں اِک آن
یہ خُوش دلی کا جُو ٹھہرا ہے آن کر سامان
گلے میں ڈال کہ بانہیں خوشی سے تم اے جان
پہناؤ ہم کو بھی اِک دم یہ ہار ہولی کا

ادھر سے رنگ لیے آؤ تم ادھر سے ہم
گلال عبیر ملیں منہ پہ ہو کہ خوش ہر دم
خُوشی سے بولیں ہنسیں ہولی کھیل کر باہم
بہت دنوں سے ہمیں تُو تمہارے سر کی قسم
اسی اُمید میں تھا انتظار ہولی کا

بتوں کی گالیاں ہنس ہنس کہ کوئی سہتا ہے
گلال پڑتا ہے کپڑوں سے رنگ بہتا ہے
لگا کہ تاک کوئی منہ کو دیکھ رہتا ہے
نظیرؔ یار سے اپنے کھڑا یہ کہتا ہے
مزا دکھا ہمیں کچھ تُو بھی یار ہولی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse