ہولی (نظیر اکبر آبادی, II)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہولی
by نظیر اکبر آبادی

پھر آن کے عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر
اور عیش نے عرصہ ہے کیا تنگ زمیں پر
ہر دل کو خوشی کا ہوا آہنگ زمیں پر
ہوتا ہے کہیں راگ کہیں رنگ زمیں پر
بجتے ہیں کہیں تال کہیں زنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

گھنگرو کی پڑی آن کے پھر کان میں جھنکار
سارنگی ہوئی بین طنبوروں کی مددگار
طبلوں کے ٹھکے طبل یہ سازوں کے بجے تار
راگوں کے کہیں غل کہیں ناچوں کے بندھے تار
ڈھولک کہیں جھنکارے ہے مردنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

مستی میں اٹھا آنکھ جدھر دیکھو اہاہا
ناچے ہے طوائف کہیں مٹکے ہے بھویا
چلتے ہیں کہیں جام کہیں سوانگ کا چرچا
او رنگ کو گلیوں میں جو دیکھو تو ہر اک جا
بہتی ہیں امنڈ کر جمن و گنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

بھاگے ہے کہیں رنگ کسی پر جو کوئی ڈال
وہ پوٹلی مارے ہے اسے دوڑ کے فی الحال
یہ ٹانگ گھسیٹے ہے تو وہ کھینچے پکڑ بال
وہ ہاتھ مروڑے تو یہ توڑے ہے کھڑا گال
اس ڈھب کے ہر اک جا پہ مچے ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

بیٹھے ہیں سب آپس میں نہیں ایک بھی کڑوا
پچکاری اٹھا کر کوئی جھمکاوے ہے کھڑوا
بھرتے ہیں کہیں مشک کہیں رنگ کا گڑوا
کیا شاد وہ ہوتا ہے جسے کہتے ہیں بھڑوا
سننے میں یہاں تک نہیں اب ننگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

ہولی کی نظیرؔ اب جو بہاریں ہیں اہاہا
محبوب رنگیلوں کی قطاریں ہیں اہاہا
کپڑوں پہ جمی رنگ کی دھاریں ہیں اہاہا
سب ہولی ہے ہولی ہی پکارے ہیں اہاہا
کیا عیش ہے کیا رنگ ہے کیا ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse