ہوش و شکیب و تاب و صبر و قرار پانچوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوش و شکیب و تاب و صبر و قرار پانچوں
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

ہوش و شکیب و تاب و صبر و قرار پانچوں
قربان کر چکا ہوں میں تجھ پہ یار پانچوں

اک درد ہجر سے بس یہ پانچ عارضے ہیں
بے ہوشی بے قراری غش تپ بخار پانچوں

مطرب پسر کے غم میں بھاتے ہیں کس کے دل کو
گوری ایمن البّا دیس اور ملار پانچوں

ایمان و دین و مال و دل اور نقد جاں بھی
میں کر چکا ہوں پیارے تجھ پر نثار پانچوں

گر تو قسم بھی کھائے جھوٹے ہیں میرے پیارے
پیمان و عہد و وعدہ قول و قرار پانچوں

کرتے ہیں قتل عالم ظالم یہ عضو تیرے
مژگان و چشم و ابرو زلف و عذار پانچوں

کہسار و دشت و دریا گل زار و بزم عشرت
ہیں خار ساں نظر میں بے روئے یار پانچوں

اس طرح میں غزل کا لکھنا ہے غیرممکن
اے سحرؔ کوئی باندھے گو اب ہزار پانچوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse