ہوش و خرد کو کر دیا ترک اور شغل جو کچھ تھا چھوڑ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوش و خرد کو کر دیا ترک اور شغل جو کچھ تھا چھوڑ دیا
by نظیر اکبر آبادی

ہوش و خرد کو کر دیا ترک اور شغل جو کچھ تھا چھوڑ دیا
ہم نے تمہاری چاہ میں اے جاں دیکھو تو کیا کیا چھوڑ دیا

کوچے میں اس رشک چمن کے جا کے جو بیٹھا پھر اس نے
باغ و چمن یاں جتنے ہیں سب کا سیر و تماشا چھوڑ دیا

لوٹا ہوش اور لوٹا دیں کو دل کو بھی کچلا کیا کیا واہ
ناز کو اس نے آج تو کچھ بیداد پر ایسا چھوڑ دیا

دن کو ہمارے پاس وہ چنچل کاہے کو آوے گا اے دل
رات کو اک دم خواب میں آنا جس نے ادھر کا چھوڑ دیا

طائر دل جب ہم سے گیا پھر فائدہ کیا جو پوچھیں نظیرؔ
شوخ نے اس کو ذبح کیا یا قید رکھا یا چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse