ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی
by داغ دہلوی

ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی
آنکھ میں فتنہ گری دل میں شرارت آئی

کیا تصور ہے نہایت مجھے حیرت آئی
آئنے میں بھی نظر تیری ہی صورت آئی

اس ادا سے دم رفتار قیامت آئی
ایسے ہم کیوں نہ ہوئے ان کو یہ حسرت آئی

روز محشر جو مری داد کی نوبت آئی
یہ گئی وہ گئی کب ہاتھ قیامت آئی

اب اسی پر تو ہے تاکید وفاداری کی
جب گیا جان سے میں غیر کی شامت آئی

کہہ گئے طعن سے وہ آ کے مرے مرقد پر
سونے والے تجھے کس طرح سے راحت آئی

بن سنور کر جو وہ آئے تو یہ میں جان گیا
اب گئی جان گئی آئی طبیعت آئی

رکھ دیا منہ پہ مرے ہاتھ شب وصل اس نے
بے حجابی کے لیے کام شکایت آئی

جب یہ کھاتا ہے مرا خون جگر کھاتا ہے
دل بیمار کو کس چیز پہ رغبت آئی

گرچہ از حد ہوں گنہ گار مسلمان تو ہوں
پیچھے پیچھے مرے دوزح میں بھی جنت آئی

میں ہوا شیفتہ ان پر وہ عدو پر شیدا
ساتھ کے ساتھ ہی دونوں کی طبیعت آئی

عمر بھر اس کو کلیجے سے لگائے رکھا
تیرے بیمار کو جس درد میں لذت آئی

ہجر میں جان نکلتی نہیں کیا آفت ہے
مار کر آج اجل کو شب فرقت آئی

اپنے دیوانوں کو دیکھا تو کہا گھبرا کر
یہ نئی وضع کی کس ملک سے خلقت آئی

جذب دل کھینچ ہی لایا انہیں میرے در تک
پاؤں پڑتی ہوئی ہرچند نزاکت آئی

یوں تو پامال ہوئے سیکڑوں مٹنے والے
پہلے گنتی میں جو آئی مری تربت آئی

حشر کا وعدہ بھی کرتے نہیں وہ کہتے ہیں
فرض کر لو جو کئی بار قیامت آئی

داغؔ گھبراؤ نہیں اب کوئی دم کے دم میں
لو مبارک ہو ترقی کی بھی ساعت آئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse