ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
by نسیم دہلوی

ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
بہت جہان میں ڈھونڈھا پر آشنا نہ ملا

ہوا ہے کون سا معشوق با وفا اے دل
گلا عبث ہے اگر وہ ملا ملا نہ ملا

عجیب قسمت بد تھی شب فراق میں ہم
کمال ڈھونڈھ پھرے خانۂ قضا نہ ملا

نہ دے تو ہاتھ سے ہوں ضعف سے میں رنگ حنا
ہواے شوق فنا میں جہاں اڑا نہ ملا

جواب دے گی بھلا روز باز پرس تو کیا
اڑا اڑا کے ہمیں خاک میں صبا نہ ملا

وہ کشتہ نگہ قہر تھا کہ محشر میں
مرے جلانے کو احکام دل ربا نہ ملا

غریق بحر ستم عمر کی ہوئی کشتی
بہت سا ہم نے پکارا پہ نا خدا نہ ملا

کمال و عیش و جوانی و ملک و مال و طرب
یہ سب ملے ہمیں پر یار با وفا نہ ملا

عجیب جوش جنوں میں ہوئی تھی پامالی
کہ ایک آبلہ تک دوست دار پا نہ ملا

چبھے ہزار تمنا سے کیوں نہ بے کھٹکے
کہ خار کو کوئی ہم سا برہنہ پا نہ ملا

بہت سی کرتے رہے باغ دہر میں گل گشت
پر اپنے بلبل دل کو نسیمؔ سا نہ ملا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse