ہوس کیجے نہ عمر جاوداں کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوس کیجے نہ عمر جاوداں کی
by عاشق اکبرآبادی

ہوس کیجے نہ عمر جاوداں کی
ہے عمر خضر بھی ایسی کہاں کی

کسے خواہش ہے عمر جاوداں کی
کہاں تک ٹھوکریں کھائیں یہاں کی

اڑا کر خاک وحشی نے تمہارے
بنائے تازہ ڈالی آسماں کی

بہت دور فلک نے رنگ بدلے
نہ خو بدلی مگر اس بد گماں کی

خریدارو چلو سودا خریدو
سر بازار عاشقؔ نے دکاں کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse