ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی
by بہادر شاہ ظفر

ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی
آبرو بارے تری ابر بہاری رہ گئی

آتے آتے اس طرف ان کی سواری رہ گئی
دل کی دل میں آرزوئے جاں نثاری رہ گئی

ہم کو خطرہ تھا کہ لوگوں میں تھا چرچا اور کچھ
بات خط آنے سے تیرے پر ہماری رہ گئی

ٹکڑے ٹکڑے ہو کے اڑ جائے گا سب سنگ مزار
دل میں بعد از مرگ کچھ گر بے قراری رہ گئی

اتنا ملیے خاک میں جو خاک میں ڈھونڈے کوئی
خاکساری خاک کی گر خاکساری رہ گئی

آؤ گر آنا ہے کیوں گن گن کے رکھتے ہو قدم
اور کوئی دم کی ہے یاں دم شماری رہ گئی

ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی

جب قدم اس کافر بدکیش کی جانب بڑھے
دور پہنچے سو قدم پرہیزگاری رہ گئی

کھینچتے ہی تیغ ادا کے دم ہوا اپنا ہوا
آہ دل میں آرزوئے زخم کاری رہ گئی

اور تو غم خوار سارے کر چکے غم خوارگی
اب فقط ہے ایک غم کی غم گساری رہ گئی

شکوہ عیاری کا یاروں سے بجا ہے اے ظفرؔ
اس زمانے میں یہی ہے رسم یاری رہ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse