ہوا چلی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوا چلی
by اسماعیل میرٹھی

ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی
کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی

لہرا دیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں
پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں

پھلواریوں میں تازہ شگوفے کھلا چلی
سویا ہوا تھا سبزہ اسے تو جگا چلی

سر سبز ہوں درخت نہ باغوں میں تجھ بغیر
تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر

پڑ جائے اس جہان میں تیری اگر کمی
چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی

چڑیوں کو یہ اڑان کی طاقت کہاں رہے
پھر کائیں کائیں ہو نہ غٹرغوں نہ چہچہے

بندوں کو چاہیے کہ کریں بندگی ادا
اس کی کہ جس کے حکم سے چلتی ہے یہ سدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse