ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
by بہادر شاہ ظفر

ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
غرور چھوڑ دو اے غافلو خدا کے لیے

گرا دیا ہے ہمیں کس نے چاہ الفت میں
ہم آپ ڈوبے کسی اپنے آشنا کے لیے

جہاں میں چاہیئے ایوان و قصر شاہوں کو
یہ ایک گنبد گردوں ہے بس گدا کے لیے

وہ آئینہ ہے کہ جس کو ہے حاجت سیماب
اک اضطراب ہے کافی دل صفا کے لیے

تپش سے دل کا ہو کیا جانے سینے میں کیا حال
جو تیرے تیر کا روزن نہ ہو ہوا کے لیے

طبیب عشق کی دکاں میں ڈھونڈتے پھرتے
یہ دردمند محبت تری دوا کے لیے

جو ہاتھ آئے ظفرؔ خاک پائے فخراؔلدین
تو میں رکھوں اسے آنکھوں کے توتیا کے لیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse