ہوا ظاہر خط روئے نگار آہستہ آہستہ
Appearance
ہوا ظاہر خط روئے نگار آہستہ آہستہ
کہ جیوں گلشن میں آتی ہے بہار آہستہ آہستہ
کیا ہوں رفتہ رفتہ رام اس کی چشم وحشی کوں
کہ جیوں آہو کوں کرتے ہیں شکار آہستہ آہستہ
جو اپنے تن کوں مثل جوئبار اول کیا پانی
ہوا اس سرو قد سوں ہم کنار آہستہ آہستہ
برنگ قطرۂ سیماب میرے دل کی جنبش سوں
ہوا ہے دل صنم کا بے قرار آہستہ آہستہ
اسے کہنا بجا ہے عشق کے گل زار کا بلبل
جو گل رویاں میں پایا اعتبار آہستہ آہستہ
مرا دل اشک ہو پہنچا ہے کوچے میں سریجن کے
گیا کعبے میں یہ کشتی سوار آہستہ آہستہ
ولیؔ مت حاسداں کی بات سوں دل کوں مکدر کر
کہ آخر دل سوں جاوے گا غبار آہستہ آہستہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |