ہوا خورشید کے دیکھے سے دونا اضطراب اپنا
Appearance
ہوا خورشید کے دیکھے سے دونا اضطراب اپنا
کہ یہ نکلا سحر کو اور نہ نکلا آفتاب اپنا
ترے منہ کے جو ہر دم روبرو آنے کو کہتا ہے
ذرا آئینہ لے کر منہ تو دیکھے آفتاب اپنا
نہ اتنا ظلم کر اے چاندنی بہر خدا چھپ جا
تجھے دیکھے سے یاد آتا ہے مجھ کو ماہتاب اپنا
خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا
سحر آسا عیاں ہوتے ہی لی راہ عدم ہم نے
ہوا آنا بھی اور جانا بھی ایسا کچھ شتاب اپنا
نظیرؔ اس بحر میں فرصت کم اور عیش و طرب لاکھوں
تو پھر اب حق بہ جانب ہے کرے کیا کیا حساب اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |