ہوا جو پیوند میں زمیں کا تو دل ہوا شاد مجھ حزیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوا جو پیوند میں زمیں کا تو دل ہوا شاد مجھ حزیں کا
by امیر مینائی

ہوا جو پیوند میں زمیں کا تو دل ہوا شاد مجھ حزیں کا
بس اب ارادہ نہیں کہیں کا کہ رہنے والا ہوں میں یہیں کا

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

عجب مرقع ہے باغ دنیا کہ جس کا صانع نہیں ہویدا
ہزارہا صورتیں ہیں پیدا پتہ نہیں صورت آفریں کا

ہوائے مے میں ہوں محو ایسا چمن میں گھر کر جو ابر آیا
سیاہ مستی میں میں یہ سمجھا جہاز ہے آب آتشیں کا

امیرؔ دیکھا جو اس کا نقش تو نقش یوسف کا دل سے اترا
کہ نقش ثانی کے آگے ہوتا فروغ کیا نقش اولیں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse