ہوا جب سامنا اس خوب رو سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوا جب سامنا اس خوب رو سے
by داغ دہلوی

ہوا جب سامنا اس خوب رو سے
اڑا ہے رنگ گل کا پہلے بو سے

یہ آنکھیں تر جو رہتی ہیں لہو سے
وہ گزرے عشق کے دن آبرو سے

اسے کہئے شہادت نامۂ عشق
اسے لکھا ہے خط اپنے لہو سے

دھواں بن کر اڑی مسی کی رنگت
یہ کس نے جل کے تیرے ہونٹ چوسے

رقیبوں کو تمنا ہے تو باشد
تمہیں مطلب پرائی آرزو سے

وہ گل تکیہ مرے مرقد میں رکھنا
معطر ہو جو زلف مشک بو سے

نئی ضد ہے کہ دل ہم مفت لیں گے
بھلا کیا فائدہ اس گفتگو سے

عدو بھی تم کو چاہے اے تری شان
لڑاتے ہیں ہم اپنی آرزو سے

ہوا ہے تو تو شاہد باز اے دل
بچاؤں تجھ کو کس کس خوب رو سے

لگا رکھی ہے خاک اس رہ گزر کی
تیمم اپنا بڑھ کر ہے وضو سے

ہمارا دل اسے اب ڈھونڈتا ہے
تھکے ہیں پاؤں جس کی جستجو سے

خدا جانے چھلاوا تھا کہ بجلی
ابھی نکلا ہے کوئی روبرو سے

ہوا ہے داغؔ آصف کا نمک خوار
گزر جائے الٰہی آبرو سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse