ہوا جب سامنا اس خوب رو سے
Appearance
ہوا جب سامنا اس خوب رو سے
اڑا ہے رنگ گل کا پہلے بو سے
یہ آنکھیں تر جو رہتی ہیں لہو سے
وہ گزرے عشق کے دن آبرو سے
اسے کہئے شہادت نامۂ عشق
اسے لکھا ہے خط اپنے لہو سے
دھواں بن کر اڑی مسی کی رنگت
یہ کس نے جل کے تیرے ہونٹ چوسے
رقیبوں کو تمنا ہے تو باشد
تمہیں مطلب پرائی آرزو سے
وہ گل تکیہ مرے مرقد میں رکھنا
معطر ہو جو زلف مشک بو سے
نئی ضد ہے کہ دل ہم مفت لیں گے
بھلا کیا فائدہ اس گفتگو سے
عدو بھی تم کو چاہے اے تری شان
لڑاتے ہیں ہم اپنی آرزو سے
ہوا ہے تو تو شاہد باز اے دل
بچاؤں تجھ کو کس کس خوب رو سے
لگا رکھی ہے خاک اس رہ گزر کی
تیمم اپنا بڑھ کر ہے وضو سے
ہمارا دل اسے اب ڈھونڈتا ہے
تھکے ہیں پاؤں جس کی جستجو سے
خدا جانے چھلاوا تھا کہ بجلی
ابھی نکلا ہے کوئی روبرو سے
ہوا ہے داغؔ آصف کا نمک خوار
گزر جائے الٰہی آبرو سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |