ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا
by اکبر الہ آبادی

ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا
نثار ہونے کی دو اجازت محل نہیں ہے نہیں نہیں کا

اگر ہو ذوق سجود پیدا ستارہ ہو اوج پر جبیں کا
نشان سجدہ زمین پر ہو تو فخر ہے وہ رخ زمیں کا

صبا بھی اس گل کے پاس آئی تو میرے دل کو ہوا یہ کھٹکا
کوئی شگوفہ نہ یہ کھلائے پیام لائی نہ ہو کہیں کا

نہ مہر و مہ پر مری نظر ہے نہ لالہ و گل کی کچھ خبر ہے
فروغ دل کے لیے ہے کافی تصور اس روئے آتشیں کا

نہ علم فطرت میں تم ہو ماہر نہ ذوق طاعت ہے تم سے ظاہر
یہ بے اصولی بہت بری ہے تمہیں نہ رکھے گی یہ کہیں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse