ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
by محمد ابراہیم ذوق

ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
لگایا جی کو ناحق غم ابھی سے

دلا ربط اس سے رکھنا کم ابھی سے
جتا دیتے ہیں تجھ کو ہم ابھی سے

ترے بیمار غم کے ہیں جو غم خوار
برستا ان پہ ہے ماتم ابھی سے

غضب آیا ہلیں گر اس کی مژگاں
صف عشاق ہے برہم ابھی سے

اگرچہ دیر ہے جانے میں تیرے
نہیں پر اپنے دم میں دم ابھی سے

بھگو رہوے گا گریہ جیب و دامن
رہے ہے آستیں پر نم ابھی سے

تمہارا مجھ کو پاس آبرو تھا
وگرنہ اشک جاتے تھم ابھی سے

لگے سیسہ پلانے مجھ کو آنسو
کہ ہو بنیاد غم محکم ابھی سے

کہا جانے کو کس نے مینہ کھلے پر
کہ چھایا دل پہ ابر غم ابھی سے

نکلتے ہی دم اٹھواتے ہیں مجھ کو
ہوئے بے زار یوں ہمدم ابھی سے

ابھی دل پر جراحت سو نہ دو سو
دھرا ہے دوستو مرہم ابھی سے

کیا ہے وعدۂ دیدار کس نے
کہ ہے مشتاق اک عالم ابھی سے

مرا جانا مجھے غیروں نے اے ذوقؔ
کہ پھرتے ہیں خوش و خرم ابھی سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse