ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے (II)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
by قدر بلگرامی

ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
جو گرے تو نقش قدم بنے جو اٹھے تو بانگ درا ہوئے

کبھی داغ کھاتے ہی آہ کی کہیں آہ کرتے ہی رو دئے
کبھی ہم چمن کی ہوا ہوئے کبھی ہم ہوا کی گھٹا ہوئے

جو ہوائے درد بکھر گئی نظر ان کی صاف بدل گئی
جو اسیر حلقۂ ناز تھے وہ قتیل تیغ ادا ہوئے

ہمہ تن کبھی ہوئے درد و غم ہمہ تن کبھی ہوئے صبر ہم
کبھی آپ اپنا مرض ہوئے کبھی آپ اپنی دوا ہوئے

ہوا بعد وصل عجب مزا کہ خموش بیٹھے جدا جدا
ہمہ تن میں صبر و سکوں ہوا ہمہ تن و شرم و حیا ہوئے

اٹھے ہم جو خواب و خیال سے لگے تکنے دیدۂ جال سے
کہ وہ کب اٹھے وہ کدھر گئے ابھی پاس تھے ابھی کیا ہوئے

یہ قدم قدم پہ جمیں گے پاؤں کہ بڑھ سکو گے نہ آگے تم
ہو تمہارے کوچے کی خاک میں کہیں دفن اہل وفا ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse