ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے (I)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
by قدر بلگرامی

ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
جو گرے تو نقش قدم بنے جو اٹھے تو بانگ درا ہوئے

جو ہوا سے زلف بکھر گئی نظر ان کی صاف بدل گئی
جو اسیر حلقۂ ناز تھے وہ قتیل تیغ ادا ہوئے

ہوا بعد وصل عجب مزا کہ خموش بیٹھے جدا جدا
ہمہ تن میں صبر و سکوں ہوا ہمہ تن وہ شرم و حیا ہوئے

اٹھے ہم جو خواب و خیال ہے لگے تکنے دیدۂ حال سے
کہ وہ کب اٹھے وہ کدھر گئے ابھی پاس تھے ابھی کیا ہوئے

جو نگہ ہے چشم سیاہ میں وہی برق طور ہے راہ میں
تری آنکھ پر جو فدا ہوئے وہ شہید راہ خدا ہوئے

بنے قدرؔ ایسے غبار ہم ہوئے گردشوں میں وہ خار ہم
کہ مثال دائرۂ فلک جو اٹھے تو بے سر و پا ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse