ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے
by حفیظ جونپوری

ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے
پڑے مرحلے درمیاں کیسے کیسے

رہے دل میں وہم و گماں کیسے کیسے
سرا میں ٹکے کارواں کیسے کیسے

گھر اپنا غم و درد سمجھے ہیں دل کو
بنے میزباں میہماں کیسے کیسے

شب ہجر باتیں ہیں دیوار و در سے
ملے ہیں مجھے رازداں کیسے کیسے

دکھاتا ہے دن رات آنکھوں کو میری
سیاہ و سفید آسماں کیسے کیسے

جو کعبے سے نکلے جگہ دیر میں کی
ملے ان بتوں کو مکاں کیسے کیسے

فرشتے بھی گھائل ہیں تیر ادا کے
نشانہ ہوئے بے نشاں کیسے کیسے

جو خنجر رکا چڑھ گئی ان کی تیوری
وہ بگڑے دم امتحاں کیسے کیسے

ادھر موت ادھر وہ دم نزع آئے
اکٹھا ہوئے مہرباں کیسے کیسے

کبھی بجلی تڑپی کبھی آندھی آئی
بڑھے دشمن آشیاں کیسے کیسے

مرے جرم محشر میں کرتی ہے افشا
مرے منہ پہ میری زباں کیسے کیسے

محبت کے ہاتھوں ہوئے ظلم کیا کیا
گئے جان سے نوجواں کیسے کیسے

نشاں مٹ گئے نام پھر بھی ہیں باقی
جواں تھے تہہ آسماں کیسے کیسے

کروں یاد کس کس کو کس کس کو روؤں
حفیظؔ اٹھ گئے مہرباں کیسے کیسے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse