ہوئے رونے سے مرے دیدۂ بے دار سفید

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئے رونے سے مرے دیدۂ بے دار سفید
by بخش ناسخ

ہوئے رونے سے مرے دیدۂ بے دار سفید
بلکہ اشکوں نے کیا رنگ شب تار سفید

آنکھیں خوش چشموں کی تجھ پر ہوئیں اے یار سفید
جس طرح ضعف سے ہو چہرۂ بیمار سفید

ہو گیا ضعف سے میرا بدن زار سفید
نظر آتا ہے صنم صورت زنار سفید

ہے فقط عالم بالا سے مدد مستوں کی
کون جز ماہ کرے خانۂ خمار سفید

گلعذاروں کی جو محفل میں گیا وہ گل تر
ہو گئے زرد جو دو چار تو دو چار سفید

تو وہ یوسف ہے کہ اب منتظری میں اے جان
مثل یعقوب ہوئی چشم خریدار سفید

دود داغ سر سودا زدہ کرتا ہے سیاہ
اے جنوں ہم کبھی رکھتے ہیں جو دستار سفید

روشن اے ماہ کیا تو نے سیہ خانہ مرا
تیرے جلوے سے ہوئے ہیں در و دیوار سفید

واہ کیا رنگ حنا ہے کہ تری چٹکی سے
سرخ ہو جائے اگر ہو لب سوفار سفید

شاید ان کو نہیں اندر کی سیاہی کی خبر
کر رہے ہیں جو مری قبر کو معمار سفید

اڑ گیا رنگ شقائق ترے آگے جس دم
لوگ سمجھے کہ ہوا برف سے کہسار سفید

نقرئی پٹھے کا ڈالا نہیں تو نے موباف
ہے سیہ سارا بدن اور دم مار سفید

وصف لکھے جو ترے گورے بدن کے میں نے
ہو گئی زاغ قلم کی وہیں منقار سفید

شمع کافور سے تشبیہ بھلا دوں کیوں کر
ہے برنگ مہ تاباں بدن یار سفید

بعد اک عمر کے ناسخؔ کی جو اب آمد ہے
لکھنؤ کے ہوئے سب کوچہ و بازار سفید

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse