ہوئی یا مجھ سے نفرت یا کچھ اس میں کبر و ناز آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئی یا مجھ سے نفرت یا کچھ اس میں کبر و ناز آیا
by شوق قدوائی

ہوئی یا مجھ سے نفرت یا کچھ اس میں کبر و ناز آیا
کبھی وہ مسکرا دیتا تھا اب اس سے بھی باز آیا

نیا فتنہ جو نکلا کوئی تو تعلیم دلوانے
زمانہ لے کے اس کو پیش چشم فتنہ ساز آیا

بدلتی رہتی ہے ہر دم مری شکل اس قدر غم سے
گیا جب میں تو سمجھا وہ نیا اک عشق باز آیا

ہوئی دل کی خبر دل کو کہ وہ بد ظن ہوا ورنہ
نہ ٹپکے اشک آنکھوں سے نہ منہ تک حرف راز آیا

بچایا درد سے مجبور کر کے ترک الفت پر
وہ آیا دل شکن بن کر تو گویا دل نواز آیا

ترے ہاتھوں شکست دل میں لطف دل نوازی ہے
یہ کیا کم ہے کہ پہلو تک ترا دست دراز آیا

مگر تازہ ستم کو وہ مری صحت کا خواہاں ہے
کہ کل زخمی کیا اور آج بن کر چارہ ساز آیا

غبار راہ نے آنکھیں ملانے دیں نہ دل بھر کے
وہ میرے گھر جو آیا لے کے چشم نیم باز آیا

ہوا ہے شوقؔ مے خانہ میں داخل کس تکلف سے
بچھانے کے لئے مسجد سے لے کر جانماز آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse