ہوئی ہے ہم میں اور اس گل میں کیا کیا مار پھولوں کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئی ہے ہم میں اور اس گل میں کیا کیا مار پھولوں کی
by قدر بلگرامی

ہوئی ہے ہم میں اور اس گل میں کیا کیا مار پھولوں کی
گلے تک اٹھ گئی گلزار میں دیوار پھولوں کی

بہار آئی ہے گلشن نے قبائے سبز بدلی ہے
جوانان چمن کے سر پہ ہے دستار پھولوں کی

چمن میں آج کل اس زور سے پانی برستا ہے
ہوئی ہے بلبلوں پر ہر طرف بوچھار پھولوں کی

بکے ہیں کوڑیوں کے مول دعویٰ کر کے اس گل سے
گئی ہے آبرو کیا کیا سر بازار پھولوں کی

رسائی قدرؔ کی کیوں کر نہ ہو اس بزم رنگیں میں
چمن میں رکھتے ہیں صحبت ہمیشہ خار پھولوں کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse