ہوئی سرگشتہ خاک اپنی غبار کارواں ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئی سرگشتہ خاک اپنی غبار کارواں ہو کر
by جمیلہ خدا بخش

ہوئی سرگشتہ خاک اپنی غبار کارواں ہو کر
مجھے قسمت ستاتی ہے رقیب کامراں ہو کر

دل پژمردہ عاشق کو تم اپنے سامنے رکھنا
تماشا رقص بسمل کا دکھائے گا تپاں ہو کر

ہمارے اس دل ویراں شدہ میں اے بت رعنا
تمہاری آرزو گھبرا رہی ہے میہماں ہو کر

اڑایا تیزئ باد صبا نے گر تو غم کیا ہے
غبار اپنا بلندی پر رہے گا آسماں ہو کر

مرے دل کی عمارت گو شکستہ حال ہے لیکن
مکان خاص ہو جائے گا اس کا لا مکاں ہو کر

انیس و مونس و ہمدم امیدیں ہو نہیں سکتیں
کہاں جاتا ہے اے دل یوسف بے کارواں ہو کر

کریں کیا گفتگو آنکھیں ملا کر ان رقیبوں سے
تمہاری بزم میں بت بن گئے ہیں بے زباں ہو کر

ہمارے دیدۂ حیرت زدہ میں خواب کیا آئے
کہ تیری آرزو بیٹھی ہے اس میں پاسباں ہو کر

لگانا وار ہلکا قتل گہہ میں مجھ پہ اے قاتل
کہ لطف رقص بسمل میں دکھاؤں نیم جاں ہو کر

مری کاہیدگی اور ناتوانی پوچھتے کیا ہو
غم ہجراں دباتا ہے مجھے بار گراں ہو کر

خدا کے فضل سے اس بوستان نعت مدحت میں
جمیلہؔ نغمہ زن ہے بلبل خوش داستاں ہو کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse