ہوئی تو جا دل میں اس صنم کی نماز میں سر جھکا جھکا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوئی تو جا دل میں اس صنم کی نماز میں سر جھکا جھکا کر
by شاد لکھنوی

ہوئی تو جا دل میں اس صنم کی نماز میں سر جھکا جھکا کر
حرم سے بت خانے تک تو پہنچا خدا خدا کر خدا خدا کر

لحد میں کیا ذکر روشنی کا سر لحد بھی جو رحم کھا کر
جلا کیا جب چراغ کوئی ہوا نے ٹھنڈا کیا بجھا کر

نشان برباد گان عالم جو پوچھے صحرا میں ہم نے جا کر
صبا سے اڑ اڑ کے گرد بیٹھی بگولے اٹھے ہوا میں آ کر

جو چشم انجام بیں سے دیکھا بہار دو دن ہے پھر خزاں ہے
مآل گلشن پہ روئی شبنم ہنسے گل تر جو کھل کھلا کر

بتوں کی پر آب انکھڑیوں میں کھلا یہ دیکھا جو پتلیوں کو
یہ وہ ہیں ہندو دھرم جمن سے پھرے جو گنگا چلے نہا کر

خیال حج حرم کو چھوڑا سنا جو شہ رگ سے ہے قریں تر
طواف دل ہی کیا کیے ہم گئے نہ کعبے کو پھیر کھا کر

زمیں میں اے شادؔ مر گئے پر فلک دبائے تو کیا گلہ ہے
میان تربت ہمارے پہلو ہمیں دباتے ہیں مردہ پا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse