ہنگام نزع گریہ یہاں بے کسی کا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہنگام نزع گریہ یہاں بے کسی کا تھا
by ریاض خیرآبادی

ہنگام نزع گریہ یہاں بے کسی کا تھا
تم ہنس پڑے یہ کون سا موقع ہنسی کا تھا

اٹھا نہ میری گور سے دشمن بھی بیٹھ کر
کیا عالم آج ہائے مری بیکسی کا تھا

چھایا ہے آسماں کی طرح قبر غیر پر
دل میں مرے غبار بھرا جو کبھی کا تھا

دل نے مجھے خراب کیا کوئے یار میں
دشمن پر اعتبار مجھے دوستی کا تھا

صحرا میں پھر رہے تھے سلیماں بنے ہوئے
جس کو جنون کہتے ہیں سایہ پری کا تھا

دکھ جائے گا دل اس لئے جاری ہوئے نہ اشک
دیکھو تو پاس نزع میں کتنا کسی کا تھا

یہ اپنی وضع اور یہ دشنام سے فروش
سن کر جو پی گئے یہ مزا مفلسی کا تھا

جس انجمن میں بیٹھ گیا رونق آ گئی
کچھ آدمی ریاضؔ عجب دل لگی کا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse