ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا
by محمد ابراہیم ذوق

ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا

میں جو شہید ہوں لب خندان یار کا
کیا کیا چراغ ہنستا ہے میرے مزار کا

ہو راز دل نہ یار سے پوشیدہ یار کا
پردہ نہ درمیاں ہو جو دل کے غبار کا

اس روئے تابناک پہ ہر قطرۂ عرق
گویا کہ اک ستارہ ہے صبح بہار کا

ہے عین وصل میں بھی مری چشم سوئے در
لپکا جو پڑ گیا ہے مجھے انتظار کا

پہنچے گا تیرے پاس کبوتر سے پیشتر
مکتوب شوق اڑا کے ترے بے قرار کا

ہو پاک دامنوں کو خلش گر سے کیا خطر
کھٹکا نہیں نگاہ کو مژگاں کے خار کا

بجھنے کی دل کی آگ نہیں زیر خاک بھی
ہوگا درخت گور پہ میری چنار کا

دیکھ اپنے در گوش کو عارض سے متصل
دیکھا نہ ہو ستارہ جو صبح بہار کا

پوچھے ہے کیا حلاوت تلخابۂ سرشک
شربت ہے باغ خلد بریں کے انار کا

ہے دل کی داؤ گھات میں مژگاں سے چشم یار
ہے شوق اس کی ٹٹی کی اوجھل شکار کا

قاصد لکھوں لفافۂ خط کو غبار سے
تا جانے وہ یہ خط ہے کسی خاکسار کا

اے ذوقؔ ہوش گر ہے تو دنیا سے دور بھاگ
اس مے کدے میں کام نہیں ہوشیار کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse