ہنگامہ خیز دعوئ منصور ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہنگامہ خیز دعوئ منصور ہو گیا
by بیخود موہانی

ہنگامہ خیز دعوئ منصور ہو گیا
لب ہم نوائے خاطر مغرور ہو گیا

بزم خیال یار میں ہے محو آرزو
مجھ سے مرا خیال بہت دور ہو گیا

مٹنا تھا کب تراوش زخم جگر کا رنگ
ہاں رستے رستے زخم سے ناسور ہو گیا

تھا جلوہ گاہ یار مرا دامن نگاہ
جس ذرہ پر نگاہ پڑی طور ہو گیا

بس اے سکون یاس زیادہ ستم نہ کر
وہ اضطراب شوق تو کافور ہو گیا

ناکامیٔ ازل کی ستم رانیاں نہ پوچھ
میں اپنے اختیار سے مجبور ہو گیا

اف اضطراب شوق کی حسرت فروشیاں
حسن حیا پرست بھی مجبور ہو گیا

میں اور یہ سر نوشت ملامت کی جا نہیں
میں اس کے انتخاب سے مجبور ہو گیا

ہنگامہ ہائے غلغلۂ ما و من نہ پوچھ
بیخودؔ بھی اپنے عہد کا منصور ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse