ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے ترسانے کے بعد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے ترسانے کے بعد
by ریاض خیرآبادی

ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے ترسانے کے بعد
آج نازک سے لب ساقی ہیں پیمانے کے بعد

خم کدوں میں کچھ نہ ہوگا ایک پیمانے کے بعد
رہ نہیں سکتی کبھی مے‌ لب تک آ جانے کے بعد

میں ہوں ساقی ہے شب خلوت ہے دور جام ہے
بوسہ پر بوسہ ہے پیمانہ ہے پیمانے کے بعد

وقت ہے ایسا تھا رخصت ہو گئی ان کی حیا
بات ہی ایسی تھی کھل کھیلے وہ شرمانے کے بعد

چھیڑتے ہیں پا کے موقع ان کے اترے ہار بھی
بنتے ہیں کیوں دل ہمارا پھول مرجھانے کے بعد

حسن ہو یا عشق ہوتی ہے بری دل کی لگی
جل بجھی رو رو کے آخر شمع پروانے کے بعد

کہہ کے میں دل کی کہانی کس قدر کھویا گیا
ہیں فسانوں پر فسانے میرے افسانے کے بعد

بے خودی گم گشتگی سکر و تحیر محویت
کچھ مقامات اور بھی پڑتے ہیں میخانے کے بعد

دور تک شہرت ہے اس کی طور کہتے ہیں جسے
بے چراغ اک جلوہ گہ ہے میرے ویرانے کے بعد

کوئی ہیرے کی کنی سے کم نہ تھا ہنگام ضبط
کچھ ہمیں پینا پڑے آنسو بھی غم کھانے کے بعد

عشق کی تاریخ دہرائی زمانے نے ضرور
نام پایا قیس نے بھی تیرے دیوانے کے بعد

شور ہے رہنا قیامت سے بہت ہی ہوشیار
ان کے کوچے سے اٹھی ہے ٹھوکریں کھانے کے بعد

طبع ہو بھی تو کہیں دیوان میرا اے ریاضؔ
دیکھنے کی چیز ہوگا یہ صنم خانے کے بعد

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse