ہنسے روئے پھرے رسوا ہوئے جاگے بندھے چھوٹے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہنسے روئے پھرے رسوا ہوئے جاگے بندھے چھوٹے
by نظیر اکبر آبادی

ہنسے روئے پھرے رسوا ہوئے جاگے بندھے چھوٹے
غرض ہم نے بھی کیا کیا کچھ محبت کے مزے لوٹے

کلیجے میں پھپھولے دل میں داغ اور گل ہیں ہاتھوں پر
کھلے ہیں دیکھیے ہم میں بھی یہ الفت کے گل بوٹے

تفاوت کچھ نہیں گلچیں میں اور بے درد خوباں میں
جو اس کے ہاتھ گل ٹوٹے تو ان کے ہاتھ دل ٹوٹے

ہزاروں گالیاں دیں پھر ذرا ہنس کر ادھر دیکھا
بھلا اتنی تسلی سے پھپھولے دل کے کب پھوٹے

کچلتے ہو مجھے تم میں یہ مانگوں ہوں دعا دل میں
کوئی دلبر مرے آگے تمہیں بھی خوب سا کوٹے

زباں کی کر کے مقراض اور بنا دشنام کا کاغذ
ہمارے حق میں کیا کیا آپ نے کترے ہیں گل بوٹے

یہ کہتے ہیں کہ عاشق چھوٹ جاتا ہے اذیت سے
جب اس کی عمر کو لشکر اجل کا آن کر لوٹے

ہماری روح تو پھرتی ہے معشوقوں کی گلیوں میں
نظیرؔ اب ہم تو مر کر بھی نہ اس جنجال سے چھوٹے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse